![](https://ifttt.com/images/no_image_card.png)
سمندر میں ایسی نایاب مچھلیاں موجود ہیں جو لُٹے پٹے ماہی گیروں کو لکھ پتی بنادیتی ہیں، ان مچھلیوں میں ایک نادر و نایاب قیمتی سوا مچھلی بھی ہے۔
گزشتہ دنوں معمول کے شکار کے دوران ٹھٹھہ کے ماہی گیروں نے سوا مچھلی کا شکار کیا، جس کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے تکنیکی معاون محمد معظم کا کہنا ہے کہ یہ مچھلیوں کی اُن اقسام سے تعلق رکھتی ہے جن کے اندر سویم بلیڈر(swim bladder) یا ایئر بلیڈر(air bladder) ہوتا ہے، اسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔
یہ مچھلیوں کے جسم کے اندر ایک پاؤچ کی طرح ہوتا ہے، جس کی مدد سے یہ گہرائی میں جاتی ہیں اور اوپر آجاتی ہیں، اسی کی وجہ سے یہ آواز بھی نکالتی ہیں، اسی لئے انہیں ’’کروکر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ آرگن ایک سے 2 ملی میٹر موٹا ہوتا ہے اور بڑی مچھلیوں میں یہ ڈیڑھ سے دو کلو کا بھی ہو سکتا ہے، مادہ مچھلی کی نسبت یہ نر مچھلی میں یہ زیادہ موٹا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین میں سویم بلیڈر (swim bladder) انویسٹمینٹ کیلئے استعمال ہوتا ہے، اسے خشک کر کے رکھ دیا جاتا ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ سونا سنبھال کر رکھتے ہیں، اسی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ ہے۔
جس طرح سونے کو ضرورت پڑنے پر بیچ کر رقم حاصل کرلی جاتی ہے، اسی طرح چینی باشندے اس کے پوٹے کو ضرورت پڑنے پر بیچ دیتے ہیں۔ چین میں یہ مہنگی ملتی ہے اس لئے پاکستان میں بھی اس کی قیمت زیادہ ہے، اسے چین اور دنیا کے کچھ دوسرے ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
معظم خان نے بتایا کہ چین میں یلو کروکر نایاب ہوچکی ہے اور اب جہاں جہاں دنیا میں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ طلب ہے، سوا مچھلی یلو کروکر کی مشابہت رکھتی ہے، اس لئے اس کی مانگ زیادہ ہے، پاکستان، بھارت اور ایران کے ساحل پر یہ مچھلی زیادہ پائی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ادویات میں استعمال نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے کوئی سائںٹیفیک ثبوت موجود ہے، اس کو سندھی میں ’’سوا‘‘ اور بلوچی میں ’’کر‘‘ کہا جاتا ہے، یہ کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے۔
پاکستان میں سوا مچھلی سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹھٹھہ میں واڑی کریک کے سامنے ماہی گیروں کی 3 کشتیوں نے سوا مچھلی شکار کی، یہ 500 کے قریب دانے تھے لیکن زیادہ بڑے سائز کے نہیں تھے۔
معظم خان نے بتایا کہ یہ چھوٹے سائز کی مچھلی تھی اس لئے اسے ’’سوا‘‘ نہیں ’کڑو‘ کہتے ہیں، کروکر کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مچھلی کو بڑے ہونے کا وقت نہیں ملتا، شکار کرلیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے یہ مچھلی خاصے بڑے سائز اور تعداد میں مل جاتی تھی، 5، ساڑھے 5 فٹ کی کروکر ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی تھی، کراچی فش ہاربر پر روزانہ 100 سے 200 دانے نظر آجاتے تھے لیکن اتنی بڑی ’’کروکر‘‘ مچھلی اب شاذر و نادر نظر آتی ہے۔
معظم خان نے مزید کہا کہ بڑی تعداد میں شکار کے نتیجے میں بہت سی مچھلیوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے، شارک کی بہت سی نسلیں ختم ہوگئیں، بہت سی مچھلیوں کی قسمیں ختم ہوگئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیروں کی کشتیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہمارے ہاں ضرورت سے دو گنا زائد کشتیاں موجود ہیں، اتنے بڑے پیمانے پر شکار ہوتا رہا تو بہت سی مچھلیوں کی مزید نسلیں معدوم ہوجائیں گی، یہی سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ ’’کروکر‘‘ کی نسل بھی ختم ہوجائے گی۔
معظم خان نے بتایا کہ کروکر کی فیملی کو اسکولنگ فش بھی کہتے ہیں، یہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہجرت کرتی ہیں، یہ گروپ میں سفر کرتی ہیں، غول کے غول ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔
December 23, 2022 at 11:31PM Posted By Sama News : https://ift.tt/eTOZia2
Comments
Post a Comment